Sultan Salah ud Din Ayubi and Nile (Chapter#03)
صلاح الدین ایوبی اور دریائے نیل:
شمالی افریقہ کی شہ رگ جس میں پانی آنے کا جشن مصر کے پہلے سلطان کی نگرانی میں منایا جاتا تھا
جب دریا میں پانی نہیں آتا تھا: قاہرہ میں قحط کا آنکھوں دیکھا حال:
لیکن دریا ہر سال اس طرح مہربان نہیں ہوتا تھا۔ اور انہی دنوں میں منظر اتنا مختلف بھی ہو سکتا تھا جس کا تصور بھی مشکل ہے۔
1200میں ایک اور غیرملکی سائنسدان ، فزیشن دانشور انھی دنوں میں قاہرہ میں موجود تھے اور انھوں نے بھی دریائے نیل میں پانی آنے کے دنوں کا احوال اپنی تحریروں میں چھوڑا ہے۔ فرق صرف اتنا ہے کہ اس سال پانی توقع کے مطابق نہیں آیا تھا۔ عبدالطیف کا تعلق بغداد سے تھا۔
"سٹورٹ "لکھتے ہیں کہ وہ لسانیات، مذہبی علوم اور ادب پر بھی دسترس رکھتے تھے۔ ان کی سلطان صلاح الدین اور ان کے بیٹوں سے اچھی دوستی تھی۔
عبدالطیف نے اپنے قاہرہ کے دورے کا تفصیلی احوال بیان کئے ہیں جس میں وہ اہرام مصر کے ساتھ دریائے نیل کا خصوصی ذکر کرتے ہیں۔
سٹورٹ نے اپنی کتاب میں عبدالطیف کے حوالے سے لکھا کہ 1200 میں ان کے قاہرہ میں قیام کے دوران جب دریا میں پانی کی سطح کی پیمائش کی گئی تو وہ صرف 12 کیوبک اور 21 انگلیاں پائی گئی۔
وہ لکھتے ہیں کہ اس برس دریا کی سطح اپنے وقت پر بلند ہونا شروع ہو گئی تھی لیکن9 ستمبر تک 12 کیوبک ہی تھی اور یہ اچھی خبر نھیں تھی بلکہ آنے والے قحط کا اعلان تھا۔
دریائے نیل کے پانی پر سبز کائی کا راز:
"سٹورٹ" نے بغدادی فزیشن کے حوالے سے لکھا کہ اس برس قاہرہ کے باسیوں نے دریا کے پانی کی سطح پر سبز تہہ دیکھی تھی جو آہستہ آہستہ رنگت میں گہری ہوتی جا رہی تھی۔ اس کے ساتھ ساتھ پانی سے شدید بدبو بھی اٹھ رہی تھی ’بالکل اس طرح جیسے کڑوی چقندر کے رس سے اٹھتی ہے۔
لوگوں نے دریا پر کنووں کے کڑوے پانی کو ترجیح دینا شروع کر دی۔
عبدالطیف کی سائنس میں دلچسپی نے اس معمے کو حل کرنے پر مجبور کیا۔ انھوں نے ایک برتن میں پانی ڈالا پھر اس کی سطح سے انھوں نے سبز مواد ہٹا کر خشک ہونے کے لیے الگ رکھا۔ یہ سمندری کائی تھی۔ پانی صاف تو ہو گیا لیکن اس کا ذائقہ اب بھی خراب تھا اور بدبو بھی اپنی جگہ موجود تھی۔
عبدالطیف نے پانی کو ابالا تو یہ دونوں خصوصیات مزید شدت اختیار کر گئیں۔ سٹورٹ لکھتے ہیں کہ سر پر منڈلاتے قحط کی پریشانی اپنی جگہ لیکن انھوں نے کائی پر مزید تحقیق کرنے کی ٹھان لی۔
الاقصر کے قریب سے گزرتے دریائے نیل کا ایک قدیم منظر
دریاِئے نیل میں سیلاب کا اندازہ کیسے لگایا جاتا تھا:
سٹورٹ قاہرہ کے 5500 برس میں لکھتے ہیں کہ انھیں ان مختلف باتوں کا علم تھا جن کی بنیاد پر قبطی دریا میں پانی کے کم یا زیادہ ہونے کی پیشگوئی کرتے تھے۔
ان میں سے ایک طریقہ تو یہ تھا کہ ایک مخصوص رات کو مٹی کا ایک ڈھیلا کھلی جگہ میں رکھ دیا جاتا تھا۔ اگلی صبح اس میں رات بھر جذب ہونے والی نمی سے اندازہ لگایا جاتا تھا کہ اس برس دریا میں کتنا پانی آئے گا۔
اس کے علاوہ کھجور کے درخت پر پھل یا شہد کے چھتے میں شہد کی مقدار کی بنیاد پر بھی دریا میں آنے والے پانی کے بارے میں پیشگوئی کی جاتی تھی۔
اس کے علاوہ ستاروں کے علم کا بھی سہارا لیا جاتا تھا جس سے عبدالطیف کو اختلاف نہیں تھا لیکن سٹورٹ کے مطابق ان کے نزدیک پانی کی سطح پر کائی ہی سیلاب کے آنے یا نہ آنے کی حقیقت واضح کر سکتی تھی۔
انھیں یقین تھا کہ یہ کائی ان چھوٹے بڑے تالابوں میں پیدا ہوتی تھی جو اس جگہ پر موجود تھے جہاں سے دریا شروع ہوتا تھا۔
ان کا خیال تھا کہ جس سال وسطی افریقہ میں کم بارشیں ہوتی تھیں یہ کائی دریا کی سطح پر چھا جاتی تھی جیسا کہ اس برس ان کی قاہرہ موجودگی کے دوران ہوا تھا اور زیادہ بارشوں کی صورت میں دریا کا تیز پانی اسے بہا کر لے جاتا تھا۔
سٹورٹ لکھتے ہیں کہ عبدالطیف کے آبائی وطن بغداد کے قریب بھی دو دریا دجلہ اور فرات بہتے تھے جو اناطولیہ کے پہاڑوں سے نکل کر تیزی سے بہتے ہوئے خلیج فارس میں جا گرتے تھے لیکن اس کے بر عکس دریائے نیل کی پیدائش کھڑے پانی کے دلدلی علاقے سے ہوتی تھی۔
قحط جس نے انسان کو انسانوں کا شکار بنا دیا:
اس تجزیے کے بعد عبدالطیف قاہرہ پر قحط کے اثرات کا ذکر کرتے ہیں۔ دریا میں پانی کی کمی کی خبر کے ساتھ ہی سب سے پہلے کھانے پینے کی اشیا مہنگی ہو گئی تھیں۔ جن کے پاس وسائل تھے وہ مصر سے چلے گئے۔ پورے پورے خاندان شام، یمن اور مراکش تک کا سفر کرتے تھے۔
مصر کے دیہاتی قاہرہ کا رخ کرتے تھے۔ سردیوں کے خاتمے کے بعد اور نئے سال کی شروعات پر قحط کے اثرات سامنے آنا شروع ہوتے تھے۔
غریب لوگ نہ صرف مرے ہوئے جانور جن میں کتے بلیاں شامل تھے بلکہ انسانی لاشیں کھانے پر بھی مجبور ہو جاتے تھے۔ 'یہ کسی بھی معاشرے کے لیے بری بات تھی لیکن اچھے مسلمانوں کے لیے تو خاص طور پر قابل اعتراض۔'
لیکن اس سے بھی برا آگے آنا تھا۔ سٹورٹ نے عبدالعزیز کے حوالے سے لکھا ہے کہ بے گھر اور لاوارث بچے بھوک سے مارے لوگوں کا شکار بننے لگے۔
حکومت کو حکم جاری کرنا پڑا کہ بچوں کو کھانے والوں کو زندہ جلا دیا جائے گا۔ لیکن اس کا بھی زیادہ اثر نھیں ہوا۔
'میں نے خود ایک ٹوکری میں جلا ہوا بچہ دیکھا۔ اسے امیر کو دکھایا گیا اور ساتھ ہی اس بچے کے والدین کو بھی پیش کیا گیا۔ امیر نے ان دونوں کو زندہ جلانے کا حکم دیا۔'
'میں نے ایک روز آوارہ لوگوں کو سر سے زخمی ایک عورت کو بازار میں گھسیٹتے ہوئے دیکھا۔ انھوں نے اسے ایک بچے کا گوشت کھاتے ہوئے پکڑا تھا۔'
عبدالطیف کے لیے اس واقعے کی سب سے حیرت انگیز بات راہگیروں کی لاتعلقی تھی۔وہ عبدالطیف کے حوالے سے لکھتے ہیں کہ چند ہی روز میں 30 عورتوں کو ان الزامات کے تحت زندہ جلایا گیا۔ زیادہ عورتوں کے پکڑے جانے کی وہ وجہ بیان کرتے ہیں کہ ہجوم کے لیے انھیں پکڑنا مردوں کے مقابلے میں آسان تھا۔
قاہرہ جس عمل سے تباہ ہو رہا تھا، سائنس نے اس سے فائدہ اٹھایا:
سٹورٹ لکھتے ہیں کہ بحیثیت فزیشن عبدالطیف نے پرانے زمانے کے یونانی فزیشن گیلن کی روایت میں تربیت حاصل کی تھی۔ اب تک ان کی تعلیم زیادہ تر دوسری صدی میں پیش کیے نظریات کو یاد کرنے پر مشتمل تھی۔
سٹورٹ نے لکھا ہے کہ گیلن خود بھی یونانیوں کے انسانی جسم کے بارے میں نظریات کی وجہ سے کبھی تجربات نھیں کر سکے تھے۔ انسانی جسم کو کاٹنے کے بارے میں یہی ممانعت اسلام میں بھی تھی۔
لیکن قاہرہ کی صورتحال نے عبدالطیف کو ہزاروں لاشیں دیکھنے کا موقع دیا۔خود مشاہدہ کرنا گیلن کو پڑھنے سے زیادہ بہتر ہے جس نے کئی جگہوں پر کھل کر بات نہیں کی۔ اسی وجہ سے وہ اپنے استاد کی انیٹومی کے بارے میں ایک رائے کو چیلنج بھی کر سکے۔ سب فزیشن اس بات پر متفق ہیں کہ جبڑا دو ہڈیوں پر مشتمل ہے جو تھوڑی پر آ کر ملتی ہیں لیکن جو میں نے دیکھا ہے اس کے مطابق نچلا جبڑا ایک مکمل ہڈی ہے۔
سٹورٹ لکھتے ہیں کہ اتنی پرانی روایت کو چیلنج کرنا جرات کی بات تھی۔ یہ پیشرفت اس قحط کی وجہ سے ہوئی جس سے قاہرہ اجڑ گیا تھا۔ ایک محلہ جس میں پچاس خاندان رہتے تھے اب وہاں صرف چار چوکیدار نظر آتے تھے۔
:تباہی قاہرہ کی تاریخ کے دو پہلو اجاگر کرتی ہےبار بار کے قحط اور شہر میں اپنے آپ کو بحال کرنے کی غیر معمولی صلاحیت۔ عبدالطیف نے جس قحط کا ذکر کیا وہ غیرمعمولی واقعہ نہیں۔ سٹورٹ نے مارسل کلیرگیٹ کی تحقیق کا ذکر کیا جس کے مطابق ایک نصف صدی کے دوران اس شہر میں کئی قحط آئے اور اس کو غیر معمولی نھیں سمجھا گیا۔
دریائے نیل جو ایک برس تباہ کرتا تھا اگلے سال آباد کر دیتا تھا۔ تباہی نئے لوگوں کو شہر کی طرف کھینچ لاتی تھی۔ قاہرہ گرد و نواح کے لیے مقناطیس بن جاتا تھا۔
سلطان صلاح الدین کے دور میں قاہرہ ایک بار پھر آرتھوڈوکس اسلام کے لیے کھل گیا۔ غیر ملکی طالب علم قاہرہ کی مساجد کا رخ کرنے لگے۔ مشرق میں ایران اور دریائے آکسس کے پار سے پروفیسر یہاں آتے اور مغرب میں قرطبہ جیسی جگہوں سے آئے علما سے تبادلہ خیال کرتے۔ یہ لوگ مقامی عورتوں سے شادی کرتے اور شہر کی زندگی میں مسلسل تنوع رہتا تھا۔
Comments