Sultan Salah ud Din Ayubi and Nile (Chapter#02)
شمالی افریقہ کی شہ رگ جس میں پانی آنے کا جشن مصر کے پہلے سلطان کی نگرانی میں منایا جاتا تھا
فاطمی دور کے جشن کی شان و شوکت اور قرآن خوانی:
تقاریب کا اعلان ہوتے ہی قاہرہ میں جشن شروع ہو جاتا تھا جس میں ہر طرف مٹھائیاں بٹتی اور موم بتیاں جلائی جاتیں۔
فلپس بتاتے ہیں کہ اس دور کا ایک آنکھوں دیکھا حال المقرضی کی تحریروں میں بھی ملتا ہے۔ 1181عیسوی میں انھوں نے لکھا کہ سلطان صلاح الدین گھوڑے پر نائلو میٹر تک گئے۔ پانی کی سطح کا اعلان ہونے پر انھوں نے اس اہلکار کو فاطمی روایت کے مطابق شاہی تحائف سے نوازا۔
اس اہلکار کا عہدہ بھی وہی تھا جو فاطمی خلفاکے دور میں ہوتا تھا۔ اس کے علاوہ نویں صدی سے لے کر مصر میں عثمانی دور تک یہ عہدہ ایک ہی خاندان کے پاس رہا۔
فلپس نے اپنی کتاب میں لکھا ہے کہ روایت کے مطابق پانی کی سطح کی پیمائش سے ایک رات قبل مصر اور قاہرہ کی جامع مساجد میں قرآن خوانی کا اہتمام ہوتا تھا۔
مصر کی جامع مسجد میں سلطان کی دلچسپی اس مسجد کی بحالی کے کام سے لگائی جا سکتی ہے۔ اس مسجد کو دریا کے لیے اہم سمجھا جاتا تھا۔ دو برس قبل جب دریا میں پانی نہیں آیا تھا تو نائلومیٹر کی تہہ سے ایک قبر نمودار ہوئی تھی جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ حضرت یوسف ؑکی تھی جنھیں حضرت موسیٰؑ نے وہاں دفن کیا تھا۔
دریاِئے نیل کو ہمیشہ سے مصر میں زندگی کی ضمانت سمجھا جاتا ہے
:دریائے نیل کے پانی کو معطر کرنے کی رسم
فلپس نے اپنی کتاب میں لکھا کہ دریائے نیل کے پانی کو معطر کرنے کی رسم کے دن شاہی محل سے ایک مرکزی جلوس نکلتا ۔ یہ جلوس شہر کے جنوبی دروازے سے ہوتا ہوا مسجد طولون کی طرف سے ہوتا ہوا شپ یارڈ کے پاس سے بل کھاتا ہوا سنیاروں کے بازار پہنچتا۔ اس سے آگے کسٹم ہاؤس تھا اور اس کے بعد جلوس ایک چھوٹے سے پویلین پر جا رکتا ۔ دریائے نیل کے کنارے یہ پویلین دراصل "دار الملک" تھا۔اس موقع پر بڑی تعداد میں غیر ملکی تاجروں کی موجودگی خلیفہ کے لیے باہر والوں کو اپنی شان و شوکت سے متاثر کرنے کا موقع فراہم کرتی تھی۔
دریا میں دور دور تک سینکڑوں کشتیاں:
تقریب کے اگلے مرحلے میں خلیفہ اپنے چند مخصوص امرا کے ساتھ ہاتھی دانت سے سجے آبنوس کے پویلین والی اور سونے اور چاندی کی چادروں سے آراستہ ایک کشتی میں سوار ہو کر جزیرہ الروضہ کی طرف روانہ ہو جاتے جہاں نائلومیٹر نصب تھا۔ یہ منظر دیکھنے کے لیے بیتاب سینکڑوں چھوٹی چھوٹی کشتیوں میں سوار لوگ دریا میں دور دور تک عجیب نظارہ پیش کرتے تھے۔
جزیرے پر خلیفہ اس کنویں کی طرف جاتے جس میں وہ ستون کھڑا تھا جسے نائلومیٹر کہا جاتا تھا۔
فلپس نے بتایا کہ خلیفہ کے کنویں پر پہنچنے پر خصوصی دعا ہوتی تھی۔ خلیفہ زعفران اور مشک سے بنا عطر ایک پیالے میں انڈیل کر ایک اہلکار کے حوالے کر دیتے اوراس کے بعد تقریب کا سب سے اہم مرحلے کا آغاز ہوتا جس کا تصور کرنا بہت مشکل ہے۔
قاریوں کی طرف سے قرآن پاک کی تلاوت کے دوران صرف پگڑی اور زیر جامے میں ملبوس اہلکار کنویں میں کود جاتا ، ٹانگوں اور بائیں ہاتھ کے سہارے وہ ستون سے لٹکتے ہوئے دائیں ہاتھ سے عطر کنویں میں انڈیل دیتا ۔ اس اہلکار کے کامیابی سے کنویں سے باہر آنے پر تقریب مکمل ہو جاتی تھی۔ اس اہلکار کو گھوڑوں، اعزازی خلعت اور دعوت سے نوازا جاتا تھا۔
امیر المومنین کی نہر:
اس کے ساتھ نہروں کو پانی جاری کرنے کی سالانہ تقریب بھی منعقد کی جاتی تھی۔ سب سے پہلے قاہرہ کی مرکزی نہر یا ’امیر المومنین کی نہر‘ کے منھ کے آگے سے بند کاٹا جاتا تھا۔ اس کے بعد ابو مناجہ نامی اہم نہر کی باری آتی تھی۔ یہ سلسلہ ستمبر کے پورے مہینے جاری رہتا تھا جس میں سینکڑوں نہریں جاری کی جاتیں تھیں۔
اس عمل کے دوران نہروں کے منہ پر فروری کے مہینے میں جب پانی اپنی کم ترین سطح پر ہوتا تھا، کھڑے کیے گئے مٹی اور گھاس کے بند ختم کیے جاتے تھے۔ سب سے بڑا بند فسطاط میں تھا۔
فاطمی خلیفہ کے جلوس کی شان: ایران سے آئے ایک دانشور کا آنکھوں دیکھا بیان:
ناصر خسرو (1004-1088) ایرانی دانشور تھے۔ انھیں عربی اور فارسی کے علاوہ ترکی، یونانی اور کچھ شمالی ہندوستانی زبانوں پر دسترس تھی۔ خیال کیا جاتا ہے کہ انھیں عبرانی زبان بھی آتی تھی۔ وہ سنہ 1047 میں فاطمی خلیفہ الحکیم کے دور میں مصر آئے تھے۔
انھوں نے بیسویں صدی تک قاہرہ کی سب سے شاندار سمجھی جانے والی تقریب کا احوال اپنی تحریروں میں چھوڑا ہے۔
برطانوی مصنف ڈیسمنڈ سٹورٹ نے اپنی کتاب ’قاہرہ 5500 برس‘ میں ناصر خسرو کے حوالے سے لکھا کہ ہر سال گرمیوں کے موسم میں تمام نظریں دریائے نیل کے پانی کی سطح پر ہوتی تھیں۔
ناصر نے لکھا کہ ’پورے ملک میں مٹی کے بند دریا کے بلند ہوتے ہوئے پانی کو نہروں میں جانے سے روک کر رکھتے تھے۔ قاہرہ میں بھی ایک بند نے ایک خاص موقع کے انتظار میں شہر کی نہر میں پانی کو آنے سے روکا ہوا تھا۔ پھر قاہرہ سمیت ملک بھر میں سینکڑوں بند توڑ دیے گئے اور دریا کا پانی دور دور تک زمینوں کو سیراب کرنے لگا۔ قاہرہ کی خشک نہر پینے کے لیے صاف پانی سے بھر گئی۔
بند توڑنے کی رسم کے موقع پر خلیفہ کے لیے نہر پر سونے اور قیمتی موتیوں کے کام والے بازنطینی ساٹن کا شامیانہ لگایا گیا جس کے اندر بھی اسی معیار کی تزئین و آرائش کی گئی تھی۔
جلوس میں سونے چاندی کی ریل پیل اور فاطمی خلیفہ کی سادگی:
ناصر خسرو لکھتے ہیں کہ شامیانہ اتنا بڑا تھا کہ اس کے سائے میں ایک سو گھوڑے کھڑے ہو سکتے تھے۔
مصنف سٹورٹ کی کتاب میں ناصر خسرو کے حوالے سے لکھا ہے کہ اس تقریب سے تین روز پہلے گھوڑوں کو شور شرابے کا عادی بنانے کے لیے اصطبل میں مسلسل بگل اور نقارے بجائے جاتے تھے۔
خلیفہ کی سواری کی روانگی کے وقت اس کے جلوس میں سونے کی کاٹھیوں والے 10 ہزار گھوڑے تھے۔ گھوڑوں کی کاٹھیوں کے نیچے بازنطینی ساٹن بچھا تھا جو خاص طور پر اسی مقصد کے لیے تیار کیا جاتا تھا۔ اس لیے اسے نہ سینے کی ضرورت تھی نہ کاٹنے کی۔ ہر گھوڑے پر زرہ بکتر تھی۔
اس روز خلیفہ کے تمام سپاہی جن کی تعداد ایک لاکھ سے زیادہ تھی وہاں حاضر ہوتے ۔ مصر میں مقیم غیر ملکی شہزادے بھی تقریب کا حصہ بنے۔ یہ شہزادے شمالی افریقہ، یمن، بازنطین، سلاو ممالک، نوبیا اور ایتھوپیا سے آتے تھے۔ ان میں سے کسی کا بھی وظیفہ 500 دینار سے کم نہیں تھا اور کچھ کو تو 2000 مغربی دینار ملتے تھے۔ ان شہزادوں کا اس کے سوا کوئی کام نھیں تھا کہ وہ وزیر کے سامنے حاضری دیں، سلامی پیش کریں اور اپنے ملکوں کو واپس لوٹ جائیں۔
تقریب میں شامل 10 ہزار گھوڑوں کی لگام پکڑنے کے لیے اتنے ہی لوگ تعینات تھے۔ ان سے آگے باجے، بگل اور نقارے بجانے والے چلتے تھے۔ ان سب کو اپنی خدمت کے عوض تین درہم دیے گئے۔گھوڑوں اور سپاہیوں کے ہجوم کے پیچھے کافی فاصلے پر خلیفہ کی سواری تھی۔
مصر اور شام کے سلطان صلاح الدین ایوبی کا ایک قدیم خاکہ
’انھوں نے عرب روایت کے مطابق سفید جُبہ پہنا ہوا تھا جس کی قیمت کم سے کم 10 ہزار دینار تھی۔ اس کے آگے چھوٹی چھوٹی کدالیں اٹھائے تین سو ایرانی چل رہے تھے۔ قافلے میں جلتی ہوئی امبر اور ایلو/ کوار گندل اٹھائے خواجہ سرا بھی شامل تھے۔
تاہم مؤرخ نذر السید نے اپنی کتاب ’قاہرہ: ایک شہر کی تواریخ‘ میں ناصر خسرو کے قاہرہ کی شان و شوکت کے بیان کا ذکر کرتے ہوئے لکھا کہ ہے ہمیں ذہن میں رکھنا چاہیے کہ انھوں نے اسماعیلی شیعہ مذہب اختیار کر لیا تھا اور وہ فاطمی خلافت کے مداح تھے اس لیے ان کی تحریروں میں مبالغہ آرائی کو رد نہیں کیا جا سکتا۔
نہر بہنا شروع ہو گئی:
’نہر کے منہ پر پہنچ کر خلیفہ نے ایک گھنٹہ شامیانے کے نیچے گزارا۔ پھر انھیں ایک کدال تھمائی گئی جو انھوں نے بند پر چلائی۔ یہ جیسے ایک اشارہ تھا اور وہاں جمع لوگ اپنے اپنے اوزاروں کے ساتھ بند پر ٹوٹ پڑے اور آہستہ آہستہ بند کمزور پڑ گیا اور دریا سے پانی نے ایک بار پھر نہر میں بہنا شروع کر دیا۔‘
سٹورٹ نے ناصر کے حوالے سے بتایا کہ نہر میں اترنے والی پہلی کشتی سننے اور بولنے کی قوت سے محروم افراد کی تھی کیونکہ کہا جاتا تھا کہ ایسا کرنا اچھا شگون ہوتا ہے۔ خلیفہ کی حکم پر ان لوگوں میں خیرات تقسیم کی گئی۔
Comments